“وہ صرف میرے والد نہیں تھے… ایک ادارہ تھے🕊️“
شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا نقیب احمدؒ کی یاد میں💔
شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا نقیب احمدؒ ایک ایسی شخصیت تھے جنہوں نے زندگی بھر علم بانٹا، انسانیت سنواری، اور دین کی شمعیں روشن کیں۔ وہ صرف ہمارے گھر کے سرپرست نہیں، بلکہ ہزاروں دلوں کے معلم، مربی، اور رہنما تھے۔
آج اُنہیں ہم سے بچھڑے 11 برس گزر گئے مگر…
نہ ان کی دعائیں بھولی ہیں، نہ ان کی تعلیمات۔
وہ مٹی میں جا کر بھی بجھ نہ سکے… بلکہ دلوں میں جلتے چراغ بن گئے۔
کچھ عظیم لوگ صرف نام نہیں، ایک پیغام بن جاتے ہیں ایک فکر، ایک تحریک، اور ایک زندہ ادارہ ہوتی ہیں۔ وہ زندگی میں بھی چراغِ راہ ہوتی ہیں، اور وفات کے بعد بھی دلوں میں روشنی بانٹتی رہتی ہیں۔
شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا نقیب احمدؒ انہی ہستیوں میں سے ایک تھے — ایک ایسا مردِ حق، جن کے لفظ میں تاثیر تھی، جن کے عمل میں اخلاص تھا، اور جن کی زندگی علم، قلم اور خدمت کا حسین امتزاج تھی۔
آپ کا تعلق خارہ گاؤں، ضلع لوئر دیر، تحصیل ثمرباغ سے تھا، جہاں 1955 میں آپ نے آنکھ کھولی۔
بچپن سے ہی علم و تقویٰ کا رجحان آپ کی طبیعت میں نمایاں تھا۔ یہی رجحان بعد ازاں جامعہ اکوڑہ خٹک کی علمی فضا میں پروان چڑھا، جہاں سے آپ نے دینی علوم حاصل کیے۔ اس کے بعد جامعہ پشاور سے عربی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی، اور پھر ساری زندگی تعلیم و تبلیغ، تربیت و اصلاح، خدمت و قیادت میں وقف کر دی۔
آپ نے 1986 میں ثمرباغ میں “الجامعۃ العربیہ الاسلامیہ” کی بنیاد رکھی — ایک ایسا علمی قلعہ جہاں سے ہزاروں شاگردوں نے علم کی روشنی حاصل کی۔
1992 میں آپ نے “اقراء پبلک اسکول اینڈ کالج” کا آغاز کیا، جو آج بھی ایک درخشاں مینار کی مانند علاقے کے بچوں کے لیے علم و تربیت کا مرکز ہے۔
آپ صرف عالمِ دین ہی نہیں، بلکہ مربی،مصلح، باکردار تاجر، اور دردِ دل رکھنے والے سماجی رہنما بھی تھی _مساجد کی تعمیر ہو یا پانی کی فراہمی، یتیموں کی کفالت ہو یا مستحق طلبا کی مدد — آپ کی زندگی سراپا خدمت تھی۔
رمضان المبارک میں دورۂ تفسیر ہو یا طلبہ کے لیے تعلیمی وظائف، آپ کی ہر کوشش ایک مقصد کے تحت تھی: امت کو علم، شعور اور کردار کے زیور سے آراستہ کرنا۔
آپ نے شرح ترمذی، احکام المواریث، اور متعدد فقہی و تربیتی موضوعات پر عربی کتب تحریر کیں، جن کے اردو تراجم نے علم کے متلاشیوں کو نئی سمت عطا کی۔
آپ کا قلم فقہی بصیرت، دینی فہم، اور تربیتی حکمت کا آئینہ تھا۔
آپ کی سیاسی بصیرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے معاشرتی اصلاح کی جدوجہد کی، جبکہ افغان جہاد کے دوران آپ کی فکری حمایت اور عملی معاونت، دین سے آپ کے سچے تعلق کی گواہی ہے۔
پھر وہ دن آیا💔…
جب 2014 میں، 59 برس کی عمر میں، آپ خاموشی سے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے۔
تدفین آبائی علاقے ثمرباغ میں ہوئی، نمازِ جنازہ آپ کے بیٹے مفتی بلال احمد نے ادا کی

لیکن آپ کی زندگی کے چراغ ابھی بجھے نہیں —
آپ کی باتیں، دعائیں، تحریریں، اشعار ، شاگرد، ادارے، بیٹے…
سب آج بھی آپ کے مشن کو روشن رکھے ہوئے ہیں۔
آپ کے اولاد میں بیٹے انجینئر خلیل اللّٰہ ،ڈاریکٹر اقراء پبلک اسکول اینڈ کالج ڈاکٹر عزیز احمد، برہان اللہ ربانی ایڈوکیٹ، ڈاکٹر رضوان اللہ، عالم دین ڈاکٹر مفتی بلال احمد، صحافی یاسر احمد، اسامہ احمد جبکہ 5 بیٹیاں شامل ہے، آپ کے سرفرستی میں آپ کے ۷ بیٹے حفظِ قران بنے تھے
آپ کے شاگرد آج بھی محراب و منبر سے لے کر درسگاہوں تک، آپ کے علم و قلم کا پرچم تھامے کھڑے ہیں۔
آپ کی تحریریں آج بھی طلبہ و علما کے لیے روشنی کا مینار ہیں۔
دین، تعلیم، دعوت اور صحافت کے میدانوں میں مصروف وہ شجر ہے جو ایک مردِ قلندر نے صبر، دعا اور کردار سے لگایا تھا۔
آپ کی مساجد، ادارے اور نیکیاں…
سب گواہی دیتے ہیں کہ شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا نقیب احمدؒ صرف ایک فرد نہیں، ایک عہد تھے۔

مولانا نقیب احمدؒ کی قبر کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ بنا
انہیں اپنی رحمت، اپنی رضا، اور اپنی قربت سے نواز
ان کی علمی، فکری، دینی، روحانی اور سماجی میراث کو تاقیامت زندہ رکھ، اور ہمیں ان کے مشن کا سچا وارث بنا
آمین یا رب العالمین