1950 کی بات ہے۔ ڈسکہ میں ایک جلسے کے دوران مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ: “آپ کو چاہیے کہ نمائندگی کے لیے اچھے اور باکردار افراد تلاش کریں۔”
اس پر سامعین میں سے ایک شخص نے بلند آواز میں کہا:
“ہمارے ملک میں اچھے لوگ تو ہیں ہی نہیں!”
مولانا مودودیؒ نے نہایت سنجیدگی اور وقار سے جواب دیا:
“اگر لاکھوں کروڑوں انسانوں میں آپ کو ایک بھی اچھا آدمی نہیں ملتا، تو پھر ہمیں سب کو اللہ کے عذاب کے لیے تیار رہنا چاہیے!”
ایک اور جلسے میں خطاب کے بعد سوالات کی اجازت دی گئی۔
ایک شخص نے اعتراض کیا:
“آپ مساوات اور عدل کی بات کرتے ہیں، مگر خود کرسی پر تشریف فرما ہیں جبکہ تمام سامعین فرش پر بیٹھے ہیں؟”
یہ ایک سطحی اور مہمل اعتراض تھا، مگر مولانا نے اس کا جواب بھی اپنے مخصوص انداز میں دیا۔ فرمایا:
“گردے کی تکلیف کی وجہ سے مجھے ٹیک لگائے بغیر بیٹھنے میں دشواری ہوتی ہے، یہ ایک جسمانی مجبوری ہے۔ رہا صدرِ جلسہ کا معاملہ، تو اس کا بلند مقام اس لیے ہوتا ہے تاکہ وہ تمام حاضرین پر نظر رکھ سکے۔ مسجد میں امام بھی تو منبر پر بیٹھتا ہے!”
مسجد، امام اور منبر کی یہ جامع مثال سن کر معترض خاموش اور مطمئن ہوگیا۔
اسی دورے کے دوران، مرے کالج کے ایک وسیع النظر شیعہ پروفیسر، جناب عاشق حسین صاحب، نے سوال کیا:
“آپ کی اسلامی ریاست میں مسلم اقلیتوں، یعنی شیعوں اور قادیانیوں، کی کیا حیثیت ہوگی؟”
مولانا مودودیؒ نے وضاحت سے فرمایا:
“شیعہ حضرات کو قادیانیوں کے ساتھ یکساں شمار کرنا درست نہیں۔ جنوری 1951ء میں ملک بھر کے 31 جید علمائے کرام نے اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے جو 22 نکاتی متفقہ پروگرام پیش کیا، اس میں شیعہ علما بھی شریک تھے۔
رہے قادیانی، تو ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی ریاست میں انہیں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا جائے گا۔”
اسی سفر کے دوران مولانا مودودیؒ نارووال اور ظفروال بھی تشریف لے گئے۔
