پتھروں کے بیچ دفن ہو چکی امید — ایک لاش، چار دوست، اور بےحس حکمران

Spread the love

پتھروں کے بیچ دفن ہو چکی امید — ایک لاش، چار دوست، اور بےحس حکمران💔

وہ چار دوست… جو شاید زندگی کے سب سے خوبصورت لمحوں میں تھے، گجرات کی گلیوں سے نکلے تھے — ہنستے، مسکراتے، تصویریں کھینچتے، خواب سجاتے۔ ان کے فونز میں خوشی کے پل تھے، کیمروں میں عطا آباد جھیل کی مسکراہٹ تھی، اور دلوں میں یہ خیال کہ یہ لمحے ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔


پھر 15 مئی کا دن آیا… جب آخری تصویر، آخری ویڈیو، آخری لوکیشن اپنے پیاروں کو بھیجی گئی — اور پھر خاموشی چھا گئی۔
وہ خاموشی کوئی عام خاموشی نہ تھی۔ وہ خاموشی چیختی تھی، وہ خاموشی سوال کرتی تھی، وہ خاموشی دل کو کاٹتی تھی۔
کئی دن بعد… گلگت بلتستان کے ان پتھریلے، سنگلاخ پہاڑوں میں استک نالہ اور گنجی کے بیچ، ایک اجڑی ہوئی گاڑی ملی۔ اس کے شیشے ٹوٹے تھے، دروازے کچلے ہوئے تھے، اور زندگی کا نام و نشان تک نہ تھا — سوائے ایک لاش کے، جو شاید ان لمحوں میں بھی امید سے پتھر سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔
کون تھا وہ؟ سلمان؟ واصف؟ عمر؟ یا عثمان؟
کیا وہ بچ گیا تھا؟ کیا وہ چلایا ہو گا؟ مدد کے لیے پکارا ہو گا؟ کیا اُس نے دوستوں کو مرتے دیکھا ہو گا؟ کیا وہ اُنہیں جگانے کی کوشش کرتا رہا ہو گا؟ یا شاید خود نیم مردہ، وہ آسمان کی طرف دیکھتا رہا ہو گا — اُس خدا کی طرف جس سے بچپن سے سنا تھا کہ وہ سب دیکھتا ہے، سب سنتا ہے۔
لیکن اُس دن… شاید یہ سمندر بھی خاموش تھا۔ آسمان بھی اندھا تھا، زمین بھی بہری تھی۔ کوئی صدا لوٹ کر نہیں آئی۔
تصور کرو اُس آخری لمحے کو… جب اُس کی آنکھوں کے سامنے ماں کی آخری دعا تیرتی ہو گی، باپ کی وہ نصیحت جو ہمیشہ سننے سے کتراتا تھا، بہن کی ہنسی، بھائی کی شرارتیں — سب ایک فلم کی طرح چل رہی ہوں گی، اور وہ لاش — ہاں وہ لاش — صرف ایک جسم نہ رہی ہو گی، بلکہ اُن تمام جذبات، خوابوں اور لمحوں کا قبرستان بن چکی ہو گی۔


اور ہم؟ ہم کیا کر رہے ہیں؟
ہم سوشل میڈیا پر تصویریں شیئر کرتے ہیں، ویڈیوز بناتے ہیں، سیاحت کے نغمے گاتے ہیں — لیکن ان پہاڑوں پر حفاظتی دیواریں تک بنانا گوارا نہیں کرتے۔ کوئی بورڈ نہیں، کوئی سائن نہیں، کوئی گارڈ ریل نہیں۔
وزیر صاحب باہر کے ممالک میں سیاحتی ترقی کی تصویریں بنواتے پھرتے ہیں، فنڈز مختص ہوتے ہیں لیکن دیواریں نہیں بنتیں، سڑکیں مکمل نہیں ہوتیں، اور نظام ہمیشہ کاغذوں پر رہتا ہے۔

یہ لاش صرف ایک نوجوان کی لاش نہیں… یہ ہماری ناکامی کا نوحہ ہے۔ یہ ان سیاست دانوں کے وعدوں کا جنازہ ہے جو ہر تقریر میں عوام کی بہتری کا جھوٹا دعویٰ کرتے ہیں۔
ان چار بچوں کی زندگیاں اب واپس نہیں آئیں گی۔ لیکن اگر آج بھی ہم نے نہ جاگا، تو کل کوئی اور ماں اپنے بیٹے کو رخصت کرے گی، لیکن واپسی لاش میں ہو گی۔

میرا یہ لکھنا صرف دکھ بیان نہیں — یہ ایک مطالبہ ہے۔ ایک پکار ہے اُس ریاست کے نام، جو ماں کہلانا چاہتی ہے — لیکن اولاد کو بچانے میں ناکام ہے۔
Yasir Ahmad Journalist